Free Support: 10:00 am - 06:00 pm
WhatsApp : +92 333 4689950, +92 345 4989950
سنہ1925 میں عصر حاضر کے جید عالم مولا نا وحید الدین خاں اُتر دیش کے ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے اور 21اپریل 2021کو دہلی میں وفات پاگیا۔ اس جہاں رنگ و بو میں آدمی کا پیدا ہونا اور مرنا ہر نفس کا مقدر ہے۔ تاہم انسان کی عظمت اُس کی فکری تہوں میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس شخص نے انسانی تہذیب کی ترقی میں حصہ لیا اور کون وقت کی لہروں کے ساتھ بہتا رہا۔ جو فرد انسانیت کو کچھ دے گیا وہ عظیم ہوگیا جو ہوا کہ دوش پر چلتا رہا وہ عام ہوگیا۔ اس زاویہ نظر سے مولانا وحید الدین خاں کی شخصیت کا تجزیہ کیا جائے۔ تو عقل حیران رہ جاتی ہے کہ انتہائی ہیجان خیز دور میں کس طرح انھوں نے اپنے آپ کو ڈی کنڈیشنڈ رکھا۔ اور لوگوں کو درست رہنمائی فراہم کی۔ وہ حقیقت شناس داعی تھے ۔ اُنھیں جذباتی نعروں، جلسے ، جلسوں، شکایتوں اور رد عمل کی پالیسی سے کوئی سرو کار نہ تھا۔ اُن کی دعوت میں حمیت کےپہلو میں حکمت نظر آتی ہے۔ وہ گھر تعمیر کرنا چاہتے ہیں مگر بنیاد کا پتھر سیدھا رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ چھلانگ لگانے کے بجائے درست آغاز پر زور دیتے ہیں۔
مولانا نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے مدرسہ میں حاصل کی ۔پھر مقامی مدرسہ سے فارغ ہوکر ’’ مدرستہ الاصلاح‘‘ سرائے اعظم گڑھ میں داخل ہوئے۔ اس مدرسہ کے اغراض و مقاصد اور طریقہ کار کا اجمالی خاکہ مولانا شبلی نعمانی ؒ نے تیار کیا تھا۔جید عالم مولانا حمیدالدین فراہیؒ نے اس مدرسہ کے ابتدائی دور سے لے کر اپنی زندگی کے آخری لمحے تک بحیثیت ناظم’’ مدرستہ الا صلاح‘‘ کی خدمت انجام دی۔ مولانا کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ انھوں نے اس مدرسہ میں باکمال اساتذہ سے استفادہ کیا۔ جن میں ایک بڑا نام صاحب تدبر القران مولانا امین احسن اصلاحی کا ہےجن سے مولانا نے براہ راست قرآن کی تعلیم حاصل کی۔
فکری سفر میں یک دم منزل واضح نہیں ہوتی۔ ذہنی مسافرت میں کئی ایسے مقام آتے ہیں جنھیں پہلے متلاشی حق منزل سمجھتا ہے مگر کچھ دیر ٹہرنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ’’ ابھی مقام آہ و فغاں اور بھی ہیں‘‘ یہ ہی کچھ مولانا وحید الدین خاں کے ساتھ پیش آیا ۔ مدرستہ کی تعلیم تکمیل کو پہنچی تو احساس ہوا کہ ابھی کچھ تشنگی باقی ہے ۔ کیونکہ مولانا نےمحسوس کیا کہ ایک طرف معاشرے میں مغربی تہذیب کا غلبہ ہے دوسری طرف انھیں مدرسہ نے جو دینی فہم دیا ہے وہ صرف روائتی ماحول میں زندہ رہ سکتا ہے ۔ جب کہ دعوت و تذکیر کا کام روائتی اور غیر روائتی دونوں دائروں میں ہونا چا ہیے۔ پھر وہ لامحالہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو مخاطب کرنے کے لیے سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ اُنھیں کس قسم کا اسلوبِ گفتگو و تحریر اپیل کرتا ہے۔ اس کے لیے ضروری تھاجدید لیٹریچر کا مطالعہ کیا جائے۔ لہذا مولانا نے انگریزی زبان سیکھنے کا فیصلہ کیا ۔ اور دن رات محنت کرکے بدیسی زبان پر عبور حاصل کر لیا ۔ اور مغربی علوم مثلاًسائنس، ادب، فلسفہ وغیرہ کا مطالعہ کیا۔
مولانا کے فکری سفر کا اگلا پڑاؤ جماعت اسلامی ہند تھا۔ وہ تقسیم ہند کے بعد نومبر 1947ء میں جماعت اسلامی کی تحریک سے متاثر ہوئے اور تقریباً پندرہ سال جماعت کے ساتھ کام کرتے رہے۔اُس کے بعد ایک ایسا وقت آیا جب بعض اسباب نے انھیں یکسوئی کے ساتھ مطالعہ کے مواقع فراہم کیے۔ جہاں انھیں پہلی بار محسوس ہوا کہ جماعت کی فکر پر اُن کا یقین متزلزل ہورہا ہے۔ قرآن کے مطالعہ کے دوران اُن پر شدت سے یہ احساس طاری ہوا کہ قرآن اُن کے اُس تصور دین کی تصدیق نہیں کر رہا ہے۔ جس کو وہ اب تک اسلام کا صحیح ترین تصور سمجھ رہے تھے۔ یہ حقیقت منکشف ہونے کے بعد وہ جماعت اسلامی سے الگ ہو گئے۔مگر مولانا کی جماعت اسلامی ہند سے پندرہ سالہ رفاقت سعی لاحاصل نہ تھی ۔ کیونکہ مولانا نے اپنے مطالعہ و تحقیق کو ’’تعبیر کی غلطی ‘‘ کتاب لکھ کر قارئین کے سامنے پیش کیا تھا۔ مولانا نے اس کتاب میں قرآن وحدیث کی روشنی میں اُن تحاریر کا جائزہ لیا جن میں دین کو اس طرح پیش کیا گیا تھا کہ اس کی تعلیمات پر سیاسی رنگ چھا گیا۔ مولانا نے اِس غلطی کو ا تنے محکم استدلال سے واضح کیاہے کہ اب جو بھی سلیم الطبع شخص اِس کتاب کو پڑھتا ہے وہ بڑی آسانی سے دین کےدرست فہم اور سیاسی رنگ میں فر ق کر لیتا ہے ۔
مولانا وحید الدین خاں کی منزل مقصود اول روز سے دین اسلام کی دعوت تھی۔ یہ ہی وجہ ہے 1950میں جب اُن کی عمر صرف پچیس سال تھی انھوں نے ’’من انصاری الی اللہ‘‘ کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی ۔ اس ادارے سے مولانا نے کئی کتابیں شائع کیں۔ اپنی دعوتی سرگرمیوں کے پیش نظر آپ کو ہندوستان کے کئی شہروں میں قیام پذیر ہونا پڑا۔یہاں تک دہلی میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ انھوں نے ساری زندگی دعوت و تذکیر کا کام دل و جان سے کیا ۔ اُن کی عملی زندگی کی راہ ابتدا سے آخر تک دعوت ہی رہی۔ اُن کی دعوت اس محور کے گرد گھومتی ہے کہ اسلامی تعلیمات پُرامن ماحول میں زیادہ بار آور ہوتیں ہیں۔لہذا ہمیں تشدد سے دور رہنا چاہئے۔
۱۹۷۰میں انھوں نے اسلامی مرکز نئی دہلی میں قائم کیا ۔ اسلامی مرکز کے ترجمان کے طور پر 1976 میں ماہ نامہ ’’الرسالہ‘‘ جاری کیا۔ حقیقت میں الرسالہ کا جاری ہونا مولانا کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔یہ رسالہ مثبت ذہن سے شروع ہوا اور لوگوں کو مثبت رہنمائی دیتا رہا ہے۔ الرسالہ کا اجرا بالکل ایسا ہی تھا جیسے اندھیری رات میں چودھویں کے چاند کا طلوع ہونا۔کیوں کہ جس وقت یہ ماہنامہ منظر عام پر آیا، اُس وقت تمام لکھنے اور بولنے والے لوگ مایوسی کی زبان بول رہے تھے۔ہر طرف یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ امت کا ستارہ غروب ہو چکا ہے۔ اِن حالات میں الرسالہ روشنی کی کرن بن کر نمودار ہوا۔ چنانچہ اس کے پہلے شمارے اکتوبر 1976ء اس کے صحفہ اول پر یہ الفاظ درج تھے:
’’ سورج پچھم میں غروب ہوتا ہے، تا کہ وہ دوبارہ پورب سے نئی شان کے ساتھ طلوع ہو۔ یہ ایک روشن نشانی ہے جو آسمان پر ظاہر ہو کر ہر روز ہمیں بتاتی ہے کہ خدا نے اپنی مملکت کا نظام کس طرح بنایا ہے۔ یہ اس حقیقت کا ایک کائناتی اعلان ہے کہ خدا کی اس دنیا میں کوئی ’’غروب‘‘ آخری نہیں۔ ہر غروب کے لیے ایک نیا طلوع مقدر ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ آدمی کے اندر حوصلہ ہو۔ غروب کا واقعہ پیش آنے کے بعد وہ ازسر نو اپنی جدو جہد کا منصوبہ بنائے ۔ اور زندگی کی شاہراہ پر دوبارہ اپنا سفر شروع کردے۔ ‘‘
مولانا وحید الدین خاں کثیر التصانیف عالم تھے۔اُن کے قلمی سفر کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے
ابتدائی تحریریں- ۱
الجمعیۃ کی ادارت - ۲
ماہنامہ الرسالہ کا اجرا - ۳
مولانا کی ابتدائی تحریریں 22سالوں پر محیط ہیں۔ اِس دوران مولانا کی کئی معتبر کتابیں مثلاً نئے عہد کے دروازے پر، تعبیر کی غلطی، علم جدید کا چیلنج، انسان اپنے آپ کو پہچان، اسلام کا تعارف، منزل کی طرف، مارکسزم تاریخ جس کورد کر چکی ہے، سوشلزم ایک غیر اسلامی نظریہ وغیرہ منظر عام پر آئیں۔مولانا نے اِس کے علاوہ بھی مختلف موضوعات پر اپنے تاثرات قلم بندکیے۔ جو ماہنامہ زندگی(رام پور)، ماہنامہ الحسنات (رام پور)، ماہنامہ الفرقان (لکھنو)، ماہنامہ معارف (اعظم گڑھ)، ماہنامہ نگار(لکھنو)،ماہنامہ نئی نسلیں (لکھنو)، ماہنامہ نظام(کانپور)، سہ روزہ دعوت (نئی دہلی)، ہندوستانی ادب (دہلی)، ماہنامہ شاعر (ممبئی )، ماہنامہ برہان( ممبئی) اور ہفت روزہ ندائے ملت (لکھنو) وغیر ہ میں شائع ہوئے۔
15ستمبر 1963ء کو مولانا وحید الدین سید ابو الحسن علی ندوی کی دعوت پر ندوہ کے نشریاتی ادارے ’’مجلس تحقیقات و نشریات اسلام‘‘ سے وابستہ ہو گئے۔ وہاں انھوں نے مستقل تین سال کام کیا۔اس کے بعد مولانا سیداسعد مدنی کی دعوت پر 24جون 1967ء کو نئی دہلی آگئے اور جمعیۃ علما ہند کے ترجمان ہفت روزہ الجمعیۃ سے وابستہ ہوگئے۔ مولانا وحید الدین خاں نے مسلسل سات سال (1967-1974ء) تک الجمعیۃ کے جمعہ ایڈیشن کی ادارت کی۔ اس سے اگلا دور تحریک الرسالہ کا ہے۔
مولانا کی تحریر کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اپنی تصانیف میں ملت اسلامیہ کا تاریخی اور علمی تجزیہ کیا، ناکامی کے اسباب کا کھوج لگا کر مستقبل کی تعمیر و ترقی کے نقشے بنائے۔مسلمانوں کے اندر ایسا قومی شعور پیدا کرنے کی کوشش کی جو ان کی مختلف سرگرمیوں کو ایک بامعنی مجموعے میں مربوط کر سکے۔اور ایک ایسے دور میں کامیابی کا نغمہ جانفزا سنایا جب مسلم صحافت صرف فریاد وماتم کانام بن کر رہ گئی تھی۔
اول :دعوت وتذکیر۔
دوئم :امن سے محبت اور تشددسے گریز۔
مولانا بخوبی جانتے تھے کہ انسانوں کے درمیان سب سے مضبوط رشتہ انسانی برادری کا رشتہ ہے۔اور اس رشتہ کو امن کے ماحول سے ہی زندہ رکھا جا سکتا ہے۔ لہذا غیر مسلموں کو دشمن سمجھنے کے بجائے مدعو سمجھے جائے۔ اور حالات و جذبات کی رو میں بہنے کے بجائے ڈی کنڈیشنڈ مائنڈ کے ساتھ ازسر نو منصوبہ بندی کی جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے انتہائی نا مساعد حالات میں بھی دعوت و تذکیر کا کام پرامن دائرے میں جاری رکھا تھا۔ آپ نے امن کے لیے صلح حدیبہ کی یک طرفہ شرائط کو قبول کیا تھا ۔ آج ضرورت ہے کہ ان سنتوں احیا کیا جائے۔ اور دعوت کے ذریعہ ترقی یافتہ مادی دنیا کو روحانی دنیا متعارف کروایا جائے مزید براں اپنے ذہن کو کلیر کیا جائے کہ ایک مسلمان کا ایک غیر مسلم سے عداوت کا نہیں بلکہ داعی اور مدعو کا تعلق ہے
:مولانا وحید الدین کے امن پیام بر تھے۔ وہ اپنی کتاب’’ امن ِعالم ‘‘ میں رقم طراز ہیں
’’ جنگ تخریب اور امن تعمیر، جنگ فطرت کے نقشہ کے خلاف ہے اور امن فطرت کے نقشہ کے مطابق، جنگ کی تاریخ بربادی کی تاریخ ہے اور امن کی تاریخ آبادی کی تاریخ۔ جنگ کا نتیجہ فساد ہے اور امن کا نتیجہ ترقی۔ امن کی اہمیت اتنی زیادہ ہے۔ کہ اس کو حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی قیمت زیادہ مہنگی قیمت نہیں ‘‘
اُنھوں نے علم و آگہی ، شعور حیات اور امن کے فرو غ کے لیے جو خدمات انجام دیں ، اُس کی وجہ سے پوری دنیا میں مولانا کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔اور اُن کی تصنیف کردہ کتب کو جامعات کے نصاب میں شامل کیا گیا۔ مزید اُن کی مثبت فکر کے اعتراف میں اُنھیں ایوارڈ اور اعزازات دئیے گئے۔مثلا ً1983 میں پاکستان میں سرکاری سطح پر ’’سیرت رسول ﷺ ‘‘ ‘‘ پر ایک علمی مقابلہ ہوا۔اُس مقابلے میں مولانا کی سیرت البنی ﷺ پر کتاب ’’پیغمبر انقلاب ‘‘ کواول انعام کا حق دار قرار دیا گیا۔ مزید بھارت کا دوسر ا بڑا سول ایوارڈبدمابھوشن دیا گیا۔ اس کے علاوہ کئی دیگر بین الاقوامی ایوارڈ مولانا کی خدمت میں پیش کیے گئے۔
مولانا جسمانی لحاظ سے آج ہمارے درمیان نہیں رہے۔ تاہم اُن کی فکر ، اُن کا پُرامن پیغام کتابوں اور اُن کے خطبات ویڈیوزکی صورت میں آج بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ہمارا فرض ہے کہ ہم پوری دنیا میں قرآن کا پیغام پہنچائیں۔ خدائی مشن کے کام کو اپنی ذمہ داری سمجھیں۔ کیونکہ ہماری زندگی کا وقت ہمارا نہیں، بلکہ یہ خدا کی امانت ہے۔ اور حق یہ ہے کہ امانت جس کی ہو اُس کو لوٹا دی جائے۔لہٰذا زندگی کے اِن قیمتی لمحات کو پرامن جدو جہد کے لیے وقف کریں، اِس سے پہلے کہ ساز ہستی بے صدا ہوجائے۔
محمد فاروق
لاہور